30 نومبر، 2022، 1:55 PM

طاقت کے میدان اور اقتدار کے جغرافیہ میں، ہم ہی فیصلہ ساز ہیں

طاقت کے میدان اور اقتدار کے جغرافیہ میں، ہم ہی فیصلہ ساز ہیں

واشنگٹن اور اس کے اتحادی ایران کی میزائل ٹیکنالوجی خصوصا جدید ہائپر سونک بلیسٹک میزائلوں کے تجربات کو لیکر خاصے پریشان ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق ایران کے یہ جدید میزائل علاقے میں موجود تمام دفاعی نظاموں کو ناکام بنا کر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی| ان دنوں ایران اور امریکہ کے درمیان پس پردہ ایک گھمسان کی جنگ جاری ہے۔امریکہ نے مجبور ہوکر مختلف ذرائع سے تین پیغامات بھجوائے ہیں۔ آخری پیغام عمان کے توسط سے تہران کو موصول ہوا ہے۔ اس پیغام میں واشنگٹن نے تہران سے چند نئے مطالبات اور چند پرانے تنازعات کا ذکر کیا ہے ۔ ظاہرا امریکہ نے نئے مطالبات کے قبول ہونے کے بعد جوہری معاہدے میں واپسی کا عندیہ دیا ہے۔ تہران نے واشنگٹن کے نئے مطالبات کا جواب نفی میں دیا ہے اورجوہرے معاہدے کے حوالے سے نئے مطالبات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ایران میزائل ٹیکنالوجی کے موضوع پر کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرنا چاہتا نیز فلسطینی کاز اور مزاحمت کی پشت پناہی کے حوالے سے بھی ایران پیچھے ہٹنے پرتیار نہیں ہے۔
ایران میں اندرونی سطح پر ہنگاموں اور بلووں کی ابتدا میں ہی تہران کو ان اقدامات کے مقاصد اور تخریب کاروں اور بلوائیوں کی حمایت کاروں اور بیرونی طاقتوں کے پس پردہ اہداف کا اندازہ ہو گیا تھا۔ تہران جانتا تھا کہ مغربی طاقتیں ایران میں بلوائیوں کی حمایت کے ذریعے ایران کو ان کے مطالبات کے سامنے تسلیم ہونے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد تہران ایسے تمام قومی اور علاقائی موضوعات پر غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہوجائے گا جن موضوعات کو سابقہ جوہری معاہدے میں شامل نہیں کیا جاسکا تھا۔

واشنگٹن اور اس کے اتحادی ایران کی میزائل ٹیکنالوجی خصوصا جدید ہائپر سونک بلیسٹک میزائلوں کے تجربات کو لیکر خاصے پریشان ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق ایران کے یہ جدید میزائل علاقے میں موجود تمام دفاعی نظاموں کو ناکام بنا کر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی اس سے قبل صرف چین، روس اور امریکہ کے پاس تھی لہذا اس ٹیکنالوجی تک دسترس نے جہاں دفاعی جمع تفریق میں ایران کا وزن بڑھا دیا ہے وہیں ایران کے مخالفوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے اور یہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے لیے انتہائی پریشان کن امر ہے۔

نیز تہران کی طرف سے یورینیم کی60 فیصد تک افزودگی کے اعلان نے بھی واشنگنٹن اور اس کے اتحادیوں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ تہران نے نطنز اور فوردو کے جوہری پلانٹس پر سینٹری فیوجز کی دو نئی سیریزیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ یہ سینٹری فیوجز چھٹی نسل کے جدید ترین سینٹری فیوجز ہیں جن کے ذریعے ایران کی جوہری صلاحیت میں 10 گنا اضافہ ہو جائے گا۔ دفاعی ماہرین کے نزدیک ایران یورینیم کو 90 فیصد تک افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ یہ امر مغربی طاقتوں کے لیے بجلی کے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ مغرب جان چکا ہے کہ جس ایران کی دفاعی صنعت کو اپاہج رکھنے اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے ایران کو محروم رکھنے کے لیے انہوں نے اہم سائنسدانوں کے قتل، معاشی پابندیوں، اندرونی فسادات، دہشت گردی، عالمی اداروں میں ایران مخالف قراردادوں اور سفارتی سطح پر سخت ترین شرائط تک پیدا کیں اس کے باوجود اگر ایران سائنس اور ٹیکنالوجی اور خصوصا دفاعی صنعت میں بہت اہم سنگ میل عبور کر چکا ہے تو اس ایران کو کسی بھی دوسرے ذریعے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ مغرب جان چکا ہے ایران کو روکنے کے ان کے تمام حربے ناکام اور سرمایہ ضائع ہوچکا ہے۔

ایک طرف ایران اور دوسری طرف جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے اور یورپی یونین کے درمیان حالیہ کچھ عرصے سے جاری لفظی جنگ نے یورپ کی ذلت اور کمزوری کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ یوں تو جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے ایران کی جوہری تنصیبات کی نگرانی کا جواز کھو دیا ہے اس کے باوجود یورپی ٹرائیکا فرانس، برطانیہ اور جرمنی اپنے آقا امریکہ کے ساتھ ملکر منافقانہ سیاست بازی میں مصروف ہیں۔ لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ ان کے علاوہ امریکہ بھی کسی مہم جوئی کے ذریعے کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ان تینوں ممالک نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آگ گورنزز سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے حالیہ اقدمات سے جوہری تناو پیدا ہوا اور ان ممالک کی قومی سلامتی و شدید خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے جوہری توانائی کے ادارے سے کہا ہے کہ وہ ایران کو جوہری توسیع منصوبے سے روکے تاکہ جوہری تناو روکا جاسکے۔

ایران میں ہونے والے حالیہ فسادات نے مخالف طاقتوں کے چہرے سے نقب اتار دئیے ہیں۔ جب تہران ویانا میں عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر تھا اور سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں یاد کرا رہا تھا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے معاہدے میں واپس آئیں اس وقت یہی طاقتیں بلوائیوں کے ذریعے ایران کے امن کوسبوتاژ کرنے اور ایران پر دباو ڈال کر ایران کو مجبور کرکے جھکنے پر مجبور کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔ ان طاقتوں نے تین طبقات قوم پرستوں، منافقوں اور شاہ کی باقیات کو دہشت گرد گروہوں کے ذریعے تربیت دلوا کر میدان میں اتار دیا۔ عالمی استعماری طاقتوں نے بلوائیوں اور دہشت گردوں اور کرائے کے قاتلوں کے لیے تقریبا 900 ملین ڈالر کا بجٹ مختص کیا تھا۔ بلوائیوں کو دہشت گردی کی تربیت دے کر قتل و غارت گری، اور افراتفری و انتشار پھیلانے کا منصوبہ دیا گیا۔ منصوبہ سازوں کی کوشش تھی کہ ایران میں بھی شام کا تجربہ دہرایا جائے۔ ان طاقتوں کا منصوبہ ناکام ہوا کیونکہ ایران کی عوام کی اکثریت اپنی مدبر قیادت کے ساتھ وفادار نظر آئی۔ ایران کے اسلامی نظام کی حمایت میں ملک بھر میں ہونے والی زبردست عوامی ریلیاں بلوائیوں کو تنہا کر گئیں یہی وجہ بنی کہ ان تخریبی عناصر کو بھیڑیے کی طرح خونی کاروائیوں کا سہارا لینا پڑا۔

انقلاب اسلامی کی ابتداء سے ہی ایران کو ایسے حالات کا سامنا ہے۔ آٹھ سالہ مسلط شدہ جنگ، اہم شخصیات کا قتل، بم دھماکے ، محاصرے اور پابندیاں یہ سب ایران کی اسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئے تھے کہ دشمن نہیں چاہتا تھا کہ ایران میں اسلامی حکومت زیادہ دیر قائم رہے۔

مغربی طاقتوں کی طرف سے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے حالات کو کشیدگی کی طرف دھکیلنا ، افراتفری ، نا امنی پھیلانااور عدم استحکام کی حالت میں رکھنے کے کوششوں کے باوجود مایوسی اور ناکامی انکا مقدر ہے۔ یہ طاقتیں صہیونیوں اور امریکیوں کے عرب اتحادیوں کی خاطر تہران، فلسطین، شام، لبنان، یمن، عراق اور لیبیا میں کسی پرامن حل اور استحکام کو نہیں دیکھنا چاہتیں۔

لیکن اب یوکرین کے جنگی بحران سے پیدا ہونے والی بین الاقوامی صورتحال نے سب کچھ بدل دیا ہے ۔ اس نئی صورتحال میں اب حکمت عملی بھی بدل جائے گی۔ مبصرین کا خیال ہے موسم سرما کے اختتام سے پہلے جنگ کا فیصلہ کن مرحلہ آجائے گا۔

دو ہی صورتیں ممکن ہیں:

یا تو ایک ہمہ گیر جنگ شروع ہوجائے گی جس کا امکان کم ہے کیونکہ مغرب درپیش مہنگائی اور کساد بازاری کے بحرانوں کی وجہ سے کسی ایسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ جملہ علاقائی مسائل کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھا اور ان کا منطقی حل تلاش کرکے جو بھی معاہدہ ہو اس پر سختی سے کاربند رہا جائے۔
یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ موجودہ بین الاقوامی سیاسی حالات اور صورتحال میں مقاومت کو ہرگز جھکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ اور واضح نظر آ رہا ہے کہ محور مقاومت نئے قطبی نقشے کی صف بندی میں قائم ہے، اس کو دبانا ناممکن ہے۔ چین کسی بھی قیمت پر روس کی شکست قبول نہیں کرے گا اور روس کو جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے گی وہ ایران کی شکست قبول نہیں کرے گا، چاہے حالات کچھ بھی ہوں، اور ایران مزاحمت کی شکست کو قبول نہیں کرے گا، چاہے اس کی کچھ بھی قیمت ہو۔
اور جو لوگ ابھی تک اس کے معاملے کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ہم انہیں کہتے ہیں: کہ ہم اسے جلد ہی دیکھیں گے۔ اور “آنے والا کل بصیرت کی نگاہ سے دیکھنے والے کے قریب ہے ”

ایک دنیا ٹوٹ کر بکھر رہی ہے۔
ایک دنیا ابھر کر اٹھ رہی ہے۔

کالم دنگار: ڈاکٹر محمد صادق الحسینی

ترجمہ: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
بشکریہ: ida2at.org
 

News ID 1913434

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha